
بیوی کے سارے زیور دے دیے تاکہ کمرہ لے کر جان بچا سکیں ۔۔ جانیئے مری میں پھسنے لوگوں نے ہوٹل والوں سے متعلق کیا انکشافات کر دیئے؟
کہا جا رہا ہے کہ مری میں سیاحوں کی اموات کے اصل ذمہ دار وہ ہوٹل مالکان ہیں جنہوں نے عین موقعے پر ہوٹلوں کے کمروں، کھانے پینے کی ضروری اشیاء کی قیمتوں من مانے اضافے سے لوگوں سے لوٹ مار مچائی۔
مری کے حالات اتنے تشویشناک ہوچکے تھے کہ وہاں کے مقامی ہوٹل والوں نے لوگوں کی مدد کرنے کے بجائے ایک دم چیزوں کی قیمتیں بڑھا دیں۔
جو جو اطلاعات سامنے آئیں جس کے مطابق انڈا پانچ سو روپے ، ہوٹل کا کمرہ 50 ہزار روپے،برف میں پھسنے والی چھوٹی گاڑی کو دھکا لگانے کے 3 ہزار جبکہ بڑی گاڑی کو دھکا لگانے کے 5 ہزار روپے وصول کیے جانے کی اطلاعات سامنے آئیں۔
ہر ایک فرد کی مشکلات کی ویڈیوز سامنے آئیں ہر کسی نے اپنا حال بیان کیا جسے جان کر کسی کو بھی شرمندگی ہو۔
مری میں موجود چند خواتین اپنی کہانی بی بی سی کو بتاتی ہیں۔
مذکورہ خاتون کا نام نگینہ خان ہے جو اپنے خاوند کے ہمراہ لاہور سے جمعرات کی صبح مری پہنچیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمارا خیال تھا کہ ہم ایک رات مری اور ایک رات گلیات میں گزارنے کے بعد ایبٹ آباد کے راستے واپس لاہور جائیں گے۔ مگر جمعہ کی صبح جب ہم نے گلیات جانے کے لیے سفر شروع کیا تو سڑک بر ف باری سے مکمل بلاک تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر ہم نے 25 ہزار روپیہ ایک رات کا کرایہ ادا کیا اور رات ہوٹل میں گزاری۔ اب ہم ایک اور ہوٹل میں ہیں۔ جہاں پر ہمیں کھانا پینا اور رہائش فراہم کی جا رہی ہے۔
یہ سیاح تو مہنگے کرایہ ادا کرکے چھت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ مگر کلڈنہ روڈ پر کئی سیاح ایسے تھے جن سے پچاس پچاس ہزار روپیہ ہوٹل کے کمرے کا کرانیہ وصول کیا گیا۔ سیاح منہ مانگے دام دینے کو تیار تھے مگر ان سے کریڈٹ کارڈ بھی قبول نہیں کیا گیا۔
ایسی ہی ایک سیاح نصرت جہاں تھیں جو اپنے بچوں اور خاوند کے ہمراہ لاہور سے بدھ کے روز مری پہنچی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا خیال تھا کہ مری میں دو دن گزارنے کے بعد جمعے کو ہم اسلام آباد میں قیام کریں گے۔ مگر ہم نے اپنی زندگی کا وہ لمحہ دیکھا جس میں میں لمحہ بہ لمحہ جیتی اور مرتی رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے ایسا وقت بھی دیکھا ہے جب میں اللہ سے دعا کرتی رہی کہ اگر مجھے کچھ ہو بھی جائے تو کم از کم میرے بچے اور خاوند بچ جائیں۔
نصرت جہاں کا کہنا تھا کہ ’ایبٹ آباد روڈ صبح ہی سے ٹریفک کے لیے بند ہو گیا تھا۔ روڈ پر سے برف صاف نہیں ہو رہی تھی۔ گاڑیاں پھسلن کے سبب سے کھڑی ہو چکی تھیں۔ کئی گاڑیاں ٹکرا چکی تھیں۔ برف تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس موقع پر میرے خاوند اکبر مصطفیٰ تقریباً دو بجے گاڑی سے نکلے اور قریب کے ہوٹلوں میں گئے۔ ان ہوٹل والوں کا کہنا تھا کہ ان کے پاس جگہ ہے کیونکہ جن لوگوں نے ویک اینڈ گزارنے کے لیے بکنگ کروا رکھی تھی وہ نہیں پہنچے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ مگر انھوں نے میرے خاوند سے 40 سے لے کر 50 ہزار روپے تک کرایہ مانگا تھا۔ ہمارے پاس کوئی 30 ہزار روپے تھے۔ ان سے کہا کہ یہ 30 ہزار رکھ لو مگر وہ نہیں مانے۔
مری میں پھنسنے والی ایک اور سیاح جہانداد نصیر نے بتایا کہ ہم سے 50 ہزار کرایہ مانگا گیا۔ اور اس وقت ہمارے پاس 50 ہزار سے کچھ پیسے کم تھے۔ رات گزارنے کے لیے اپنی اہلیہ کے زیور ہوٹل والوں کے حوالے کرنے پڑے۔
مری میں ہوٹل مالکان کی منہ مانگی اشیاء اور دیگر چیزوں کے دام بڑھا کر سوشل میڈیا صارفین شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور یہی کہ رہے ہیں ایسی حرکات پر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں جو کہ انتہائی شرمناک بات ہے۔