
میں ماں کے ساتھ کمر کی تکلیف کے چیک اپ کے لیے ہسپتال پہنچی
میں کراچی کے بڑے ہسپتال میں کمر کی تکلیف کے چیک اپ کے لیے گئی میری ماں بھی میرے ساتھ تھی ہم ڈاکٹر کے دفتر میں گئے معائنہ کرنے والا روم ایک چھوٹا سا کمرہ تھا کمرے میں صرف دو آدمی تھے ایک نرس اور ایک میں خود نرس نے مجھے ایک کر تا دیا اور معائنہ کرنے کے لیے کمرہ تیار کرنے کے بعد ڈاکٹر کو بلا لیا ڈاکٹر نے میری کمر کو ایک نظر دیکھ کر مجھ سے تکلیف کے بارے میں پو چھا میں نے بتا یا کہ سر جری کے بعد مجھے کمر کے نچلے حصے میں درد رہتی ہے۔ اس نے میری کمر دبا ئیں اور مجھ سے پو چھا کہ دبا نے سے کوئی اثر محسوس ہو رہا ہےیا نہیں میں نے ڈاکٹر کو بتا یا کہ کہاں درد ہے اور کہاں نہیں جب معائنہ ختم ہوا ہتو ڈاکٹر نے اچا نک میرے جسم کے پچھلے حصے پر زور سے ہاتھ مارا میں نے اس معائنے کا حصہ ہی سمجھا لیکن یہ میرے لیے حیران کن تھا اس نے پھر بتا یا کہ کوئی درد نہیں ہو گی میں بہت پریشان ہوں گئی میری پشت پر ہاتھ مارنے کے بعد ڈاکٹر روم سے نکل گیا میں نے اپنی شلوار اوپر کرتے ہوئے نرس کی طرف دیکھا اس نے اپنی نظر یں نیچے کر لی لیکن اس کے لہجے سے مجھے اس کا جواب مل گیا کہ وہ اس واقعے پر شر مندہ ہے لیکن کچھ کر نہیں کر سکتی میں روم سے نکل کر ڈاکٹر کے دفتر میں پہنچی جہاں میری ماں میرا انتظار کر رہی تھی کہ پتہ چل سکے کہ ڈاکٹر کا کیا کہنا تھا ڈاکٹر نے کہا کہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے اور میں بالکل ٹھیک ہوں اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے پلکے تک نہیں جچھکی اور میں نے نظر یں نیچے کر لی ماں نے پریشانی کے عالم میں پوچھا کہ درد کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ڈاکٹر نے کہا کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہےنہ ہی اس کے لیے میڈ یکیشن کی ضرورت ہے بس آپ اس درد کو نظر انداز کر لیں یہی کافی ہوگا ہسپتال سے نکل کر گھر جاتے ہوئے وہ لمحہ بار بار میرے ذہن میں آتا رہا میرا چہرہ بجھ گیا تھا اور ماں پو چھ رہی تھی کہ آخر کیا ہوا ہے جو تم بالکل خاموش ہو گئی ہو تب میں نے اس واقعہ کو ہمیشہ کے لیے اپنے دماغ میں دفن کرنے کا فیصلہ کر لیا مجھے جب بھی یہ واقعہ یاد آتا میں اسے جھڑک دیتی میں فوری طور پر نہانہ چاہتی تھی کیو نکہ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے مجھ نہانہ چاہیے۔ اور اپنے آپ سے نفرت ہو رہی تھی نفرت کا لفظ بھی میرے احساسات کو بیان کرنے کے لیے چھوٹا محسوس ہو رہا تھا میں اس عمل کو کسی بھی طرح متمعلی قرار نہیں دے سکتی تھی میں کسی طرح ڈاکٹر کو بے گناہ قرار دینے کی ہمت نہیں کر پا رہی تھی اور نہ کوئی وجہ ڈھونڈ پا رہی تھی میں نے کوشش کی کہ اسے ایک عام سی بات سمجھ کر بھول جاؤ یا یہ سمجھ لو کہ اس نے مجھے ایک چھوٹی بیچ سمجھ کر مذاق کے طور پر ایسا کیا ہےیا پھر شاید یہ اس کا اپنا انداز تھا بات چاہے جو بھی کسی بھی ڈاکٹر کے لیے کسی حالت میں یہ نا جائز نہیں ہو جا تا۔ کہ وہ اس طرح اپنے مریض کو ہاتھ لگائے نہ ہی یہ طبی معائنے کا حصہ تھا کو لہے کو چھونا جسم کے کسی اور حصے کو چھونے سے بہت مختلف ہے یہ ایک معمولی یا قابل فراموش حرکت نہیں ہے خاص طور پر ایک مرد ڈاکٹر کے لیے ایک خاتون مریضہ کو اس طرح چھونا تو بالکل ہی نا منا سب ہے آپ شاید سوچ رہے ہو ایک چھوٹے سے واقعے کو میں اتنا بڑھ چڑھ کر کیوں پیش کر نا چاہتی ہوں اب میں اس کو دوسرے الفاظ میں بیان کرتی ہوں یہ ایک برا سرجن کراچی کے بڑے ہسپتال میں بیٹھ کر کسی لڑکی کی پشت کو دوران معائنہ چھو لیتا ہے۔